ملا نہیں اذنِ رقص جن کو کبھی تو وہ بھی شرار دیکھو​

غزل| شکیبؔ جلالی انتخاب| بزم سخن

ملا نہیں اذنِ رقص جن کو کبھی تو وہ بھی شرار دیکھو​
اگر ہو اہلِ نگاہ یارو چٹان کے آر پار دیکھو​
یہ جان لینا وہاں بھی کوئی کسی کی آمد کا منتظر تھا​
کسی مکاں کے جو بام و در پر بجھے دِیوں کی قطار دیکھو​
اگر چہ بے خانماں ہیں لیکن ہمارا ملنا نہیں ہے مشکل​
ادھر ہی صحرا میں دوڑ پڑنا جدھر سے اٹھتا غبار دیکھو​
عجب نہیں ہے پہاڑیوں پر شفق کا سونا پگھل رہا ہو​
مکانِ تیرہ کے روزنوں میں یہ نور کے آبشار دیکھو​
جو ابرِ رحمت سے ہو نہ پایا کیا ہے وہ کام آندھیوں​ نے
نہیں ہے خار و گیاہ باقی چمک اُٹھا رہگزار دیکھو​
وہ راگ خاموش ہو چکا ہے سنانے والا بھی سو چکا ہے​
لرز رہے ہیں مگر ابھی تک شکستہ بربط کے تار دیکھو​

اک آہ بھرنا شکیبؔ ہم سے خزاں نصیبوں کو یاد کر کے​
کلائیوں میں جو ٹہنیوں کی مہکتی کلیوں کے ہار دیکھو​


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام