کچھ حسنِ وفا کے دیوانے پھر عشق کی راہ میں کام آئے

غزل| نعیمؔ صدیقی انتخاب| بزم سخن

کچھ حسنِ وفا کے دیوانے پھر عشق کی راہ میں کام آئے
اے کاش تماشا کرنے کو خود تو بھی کنارِ بام آئے
الفاظ نہ تھے آواز نہ تھی نامہ بھی نہ تھا قاصد بھی نہ تھا
ایسے بھی کئی پیغام گئے ایسے بھی کئی پیغام آئے
شب مے خانے کی محفل میں اربابِ جفا کا ذکر چلا
چپ سنتے رہے ہم ڈرتے رہے تیرا بھی نہ ان میں نام آئے
ہم گر چہ فلک پرواز بھی ہیں اور تاروں کے ہم راز بھی ہیں
صیاد پہ آیا رحم ہمیں خود شوق سے زیرِ دام آئے
پھر لالہ و گل کی نگری سے اٹھلاتی ہوئی آئی ہے صبا
اے اہلِ قفس چپ چاپ سنو پھولوں کے تمہیں پیغام آئے
یہ بات الگ ہے پاس رہا کچھ تشنہ لبی کی غیرت کا
ہم پر بھی رہا ساقی کا کرم ہم تک بھی بہت سے جام آئے

شب کتنی بوجھل بوجھل ہے ہم تنہا تنہا بیٹھے ہیں
ایسے میں تمہاری یاد آئی جس طرح کوئی الہام آئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام