تو رسولِ حق تو قبولِ حق ترا تذکرہ ہے فلک فلک

نعت| نعیمؔ صدیقی انتخاب| بزم سخن

تو رسولِ حق تو قبولِ حق ترا تذکرہ ہے فلک فلک
تو ہے مصطفیٰ تو ہے مجتبیٰ ترا نعت خواں ہے ملک ملک
نہ زمیں ہی میری قرار گہ نہ فلک ہی منزلِ جذبِ دل
بڑی دیر سے ہے سفر مرا تری یاد سے تری یاد تک
یہ طبق ترا وہ طبق ترا یہ افق اِدھر وہ افق اُدھر
تری جلوہ گاہیں ہزار ہیں کبھی یاں چمک کبھی واں جھلک
ترے سب زماں ترے کل مکاں ترے مہر و مہ تری کہکشاں
تو اِدھر سے اُٹھ تو اُدھر سے آ تو یہاں چمک تو وہاں دمک
ابھی غار میں ابھی بدر میں ابھی فرش پر ابھی عرش پر
کبھی وہ ادا کبھی یہ ادا کبھی وہ جھلک کبھی یہ جھلک
ہے شبِ فراق محیطِ دل بڑی بے کلی ہے بڑی تپش
سرِ شام سے دمِ صبح تک نہ لگی پلک سے ذرا پلک
مری پیاس ہے کئی قسم کی مری پیاس ہے نئی قسم کی
کبھی بن کے ایک گھٹا برس کبھی چاندنی کی طرح چھٹک
وہ جو تُو نے خُم سے مرے لئے کوئی چاندنی سی اُنڈیل دی
ہے کئی صدی کا یہ واقعہ مرے جام میں ہے ابھی چمک
ادب ، انکسار ، غنا ، حیا ، غمِ حشر ، صدق ، صفا ، دعا
جو یہ سات رنگ ہوئے بہم تری شخصیت کی بنی دھنک
ترے غم کی جس کو ملی کسک نہ رہا اسے کوئی اور غم
اسے اور کچھ نہیں چاہیئے ترے غم کی جس کو ملی کسک



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام