میں نظر نظر پہ مچل گیا میں قدم قدم پہ ٹہر گیا

غزل| نشورؔ واحدی انتخاب| بزم سخن

میں نظر نظر پہ مچل گیا میں قدم قدم پہ ٹہر گیا
تری کائناتِ شباب میں میں جوان ہو کے جدھر گیا
یہ خرامِ ناز پہ مٹ گیا وہ شبابِ عمر پہ مر گیا
جو جوانیوں سے گزر گیا وہ قیامتوں سے گزر گیا
دل و دل ربا کا وہ ساتھ ہے کہ اُڑے تو دونوں ہی اُڑ گئے
مری آہ تا بہ فلک گئی ترا حسن تا بہ قمر گیا
میں پرکھ رہا ہوں جمال کو مجھے خال و خط کی خبر نہیں
ترا حسن دے کے نظر گیا ترا جلوہ لے کے نظر گیا
یہ زمیں بھی تھی یہ فلک بھی تھا مگر اک شباب کی تھی کمی
تری زلف تا بہ کمر گئی تو جہانِ حسن سنور گیا
ہے جمالِ یار میں جزر و مد جو مثالِ نغمۂ زیر و بم
یہ تغیراتِ شباب ہیں یہ نشہ نہیں کہ اُتر گیا
مری رات آج وہ رات ہے کہ قمر نہیں کہ سحر کروں
مری رات ایک وہ رات تھی کہ سحر ہوئی تو قمر گیا
یہ محبتوں کی نظر ہے کیا کہ نشورؔ ایک نگاہ میں
جو طرب فزا تھا ابھی ابھی وہی نغمہ درد سے بھر گیا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام