دھرتی بھی آسماں کے برابر خراب ہے

غزل| جمالؔ احسانی انتخاب| بزم سخن

دھرتی بھی آسماں کے برابر خراب ہے
چادر ہے جیسی ویسا ہی بستر خراب ہے
اس کائناتِ خواہش و امکاں سے اس طرف
منظر ہے ایک اور وہ منظر خراب ہے
آگاہ میں چراغ جلاتے ہی ہو گیا
دنیا مرے حساب سے بڑھ کر خراب ہے
ایسی جگہ اسیرِ نفس کو رکھا گیا
دیوار سے زیادہ جہاں در خراب ہے
اس کے لئے ہی آئے گی آئی اگر بہار
وہ پھول جو کہ باغ سے باہر خراب ہے
نازک اگر نہیں ہے تو شیشہ ہے بے جواز
بھاری اگر نہیں ہے تو پتھر خراب ہے
آنکھوں سے اب وہ خواب کو فرصت نہیں رہی
اک عمر ہو گئی یہ سمندر خراب ہے
تاریخ سے محال ہے لانا مثال کا
یہ عہد اپنی روح کے اندر خراب ہے
یہ بات بھی چھپی نہ رہے گی بہت کہ میں
اتنا نہیں ہوں جتنا مقّدر خراب ہے
کچھ ہاتھ خواب میں تھے گریبان پر مرے
اِک شب خیال آیا تھا یہ گھر خراب ہے

بسنے نہیں تو سیر کی خاطر چلو جمالؔ
ایک اور شہر چند قدم پر خراب ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام