پہلے تو خاک دان بنانے کا دکھ ہوا

غزل| جمالؔ احسانی انتخاب| بزم سخن

پہلے تو خاک دان بنانے کا دکھ ہوا
پھر آسمان کو مرے جانے کا دکھ ہوا
رویا ہوں ایک ہستئ نادیدہ کے حضور
مٹی میں آنسوؤں کو ملانے کا دکھ ہوا
لوگوں کو بھی ملال ہوا میرے حال پر
مجھ کو بھی داستان سنانے کا دکھ ہوا
پتھر سے آرزوۓ وفا شیشہ گر کو ہے
یہ دکھ تو سارے آئینہ خانے کا دکھ ہوا
ترے وفا پرستوں میں کچھ وہ بھی ہیں جنہیں
دنیا سے تیرے ہاتھ ملانے کا دکھ ہوا
صحرا بہت نڈھاں مری تشنگی سے تھا
دریا کو میری پیاس مٹانے کا دکھ ہوا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام