اُس کو جدا ہوئے بھی زمانہ بہت ہوا

غزل| احمد فرازؔ انتخاب| بزم سخن

اُس کو جدا ہوئے بھی زمانہ بہت ہوا
اب کیا کہیں یہ قصہ پرانا بہت ہوا
ڈھلتی نہ تھی کسی بھی جتن سے شبِ فراق
ائے مرگِ ناگہاں ترا آنا بہت ہوا
ہم خلد سے نکل تو گئے ہیں پر اے خدا
اتنے سے واقعے کا فسانہ بہت ہوا
اب ہم ہیں اور سارے زمانے کی دشمنی
اس سے ذرا بھی ربط بڑھانا بہت ہوا
اب تک تو دل کا دل سے تعارف نہ ہو سکا
مانا کہ اس سے ملنا ملانا بہت ہوا
کیا کیا نہ ہم خراب ہوئے ہیں مگر یہ دل
ائے یادِ یار تیرا ٹھکانہ بہت ہوا
لو پھر ترے لبوں پہ اُسی بے وفا کا ذکر
احمد فرازؔ تجھ سے کہا ناں بہت ہوا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام