زندہ رہ کر زندگی کا مرثیہ لکھنا پڑا

غزل| ڈاکٹر حنیف شبابؔ انتخاب| بزم سخن

زندہ رہ کر زندگی کا مرثیہ لکھنا پڑا
وصلِ لمحہ کو ہمیں اک سانحہ لکھنا پڑا
ذکر جب بھی قامت و رخسار و لب کا چھڑ گیا
بے تحاشہ خوشبوؤں کا سلسلہ لکھنا پڑا
قربتوں کی داستانیں لکھنے والو سوچ لو
کل کہو گے اس کا عنواں فاصلہ رکھنا پڑا
کچھ تو اس میں مصلحت تھی کچھ تقاضا وقت کا
دوریوں کی فصل کو بھی رابطہ لکھنا پرا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام