عجیب لوگ ہیں کیا خوب منصفی کی ہے

غزل| حفیظؔ میرٹھی انتخاب| بزم سخن

عجیب لوگ ہیں کیا خوب منصفی کی ہے
ہمارے قتل کو کہتے ہیں خود کشی کی ہے
یہ بانکپن تھا ہمارا کہ ظلم پر ہم نے
بجائے نالہ و فریاد شاعری کی ہے
ذرا سے پاؤں بھگوئے تھے جا کے دریا میں
غرور یہ ہے کہ ہم نے شناوری کی ہے
اسی لہو میں تمہارا سفینہ ڈوبے گا
یہ قتل عام نہیں تم نے خود کشی کی ہے
ہماری قدر کرو چودھویں کے چاند ہیں ہم
خود اپنے داغ دکھانے کو روشنی کی ہے
اداسیوں کو حفیظؔ آپ اپنے گھر رکھیں
کہ انجمن کو ضرورت شگفتگی کی ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام