کچھ پیاس ہے اُس حُسن کو بھی میری نظر کی

غزل| عدیمؔ ہاشمی انتخاب| بزم سخن

کچھ پیاس ہے اُس حُسن کو بھی میری نظر کی
کچھ حُسن کا پیاسا ہے میرا حُسنِ نظر بھی
ہمراہ لیے جاؤ میرا دیدۂ تر بھی
جاتے ہو سفر پر تو کوئی رختِ سفر بھی
بھیجے ہیں تلاطم بھی کئی اور بھنور بھی
اے بحرِ سخن چند صدف چند گہر بھی
پھر آنکھ وہیں ثبت نہ ہو جائے تو کہنا
پڑ جائے اگر اُس پہ تری ایک نظر بھی
درکار ہے کیا آپ کو اشکوں کی دُکاں سے
جلتی ہوئی شمعیں بھی ہیں کچھ دیدۂ تر بھی
یہ شہرِِ جدائی ہے اندھیرے ہیں شب و روز
اِس شہر میں جلتے ہیں دیئے وقتِ سحر بھی
کیا عشق ہے کیا حُسن ہے کیا جانئے کیا ہو
محشر ہے اِدھر بھی تو قیامت ہے اُدھر بھی
تُو چشمِ عنایت سے ذرا رُخ تو اِدھر کر
کافی ہے تیری ایک محبت کی نظر بھی
کچھ فرق درست اور غلط میں نہیں باقی
ہر بات پہ کچھ لوگ اِدھر بھی ہیں اُدھر بھی
کھنچنا ہے کہاں تک تجھے بانہوں کی کماں میں
تُو دل کے لئے ہے تو میرے دل میں اُتر بھی



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام