سمٹے بیٹھے ہو کیوں بزدلوں کی طرح

غزل| حفیظؔ میرٹھی انتخاب| بزم سخن

سمٹے بیٹھے ہو کیوں بزدلوں کی طرح
آؤ میدان میں غازیوں کی طرح
کون رکھتا ہمیں موتیوں کی طرح
مل گئے خاک میں آنسوؤں کی طرح
روشنی کب تھی اتنی مرے شہر میں
جل رہے ہیں مکاں مشعلوں کی طرح
داد دیجے کہ ہم جی رہے ہیں وہاں
ہیں محافظ جہاں قاتلوں کی طرح
زندگی اب ہماری خطا بخش دے
دوست ملنے لگے محسنوں کی طرح
کیسے اللہ والے ہیں یہ اے خدا
گفتگو مشورے سازشوں کی طرح
میری باتوں پہ ہنستی ہے دنیا ابھی
میں سنا جاؤں گا فیصلوں کی طرح
تم بھی دربار میں حاضری دو حفیظؔ
پھر رہے ہو کہاں مفلسوں کی طرح


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام