میں خود زمیں ہوں مگر ظرف آسمان کا ہے

غزل| محسؔن نقوی انتخاب| بزم سخن

میں خود زمیں ہوں مگر ظرف آسمان کا ہے
کہ ٹوٹ کر بھی میرا حوصلہ چٹان کا ہے
بُرا نہ مان میرے حرف زہر زہر سہی
میں کیا کروں کہ یہی ذائقہ زبان کا ہے
ہر ایک گھر پہ مسلط ہے دل کی ویرانی
تمام شہر پہ سایہ میرے مکان کا ہے
بچھڑتے وقت سے اب تک میں یوں نہیں رویا
وہ کہہ گیا تھا یہی وقت امتحان کا ہے
مسافروں کی خبر ہے نہ دکھ ہے کشتی کا
ہوا کو جتنا بھی غم ہے وہ بادبان کا ہے
جو برگِ زرد کی صورت ہوا میں اڑتا ہے
وہ اک ورق بھی مری اپنی داستان کا ہے
یہ اور بات عدالت ہے بے خبر ورنہ
تمام شہر میں چرچا میرے بیان کا ہے
اثر دکھا نہ سکا اُس کے دل میں اشک میرا
یہ تیر بھی کسی ٹوٹی ہوئی کمان کا ہے
بچھڑ بھی جائے مگر مجھ سے بے خبر بھی رہے
یہ حوصلہ ہی کہاں میرے بدگمان کا ہے
قفس تو خیر مقدر میں تھا مگر محسنؔ
ہوا میں شور ابھی تک میری اُڑان کا ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام