تم سے الفت کے تقاضے نہ نبھائے جاتے

غزل| شان الحق حقیؔ انتخاب| بزم سخن

تم سے الفت کے تقاضے نہ نبھائے جاتے
ورنہ ہم کو بهی تمنا تهی کہ چاہے جاتے
دل کے ماروں کا نہ کرغم کہ یہ اندوہ نصیب
زخم بھی دل میں نہ ہوتا تو کراہے جاتے
کم نگاہی کی ہمیں خود بهی کہاں تهی توفیق
کم نگاہی کے لیے عذر نہ چاہے جاتے
کاش اے ابرِ بہاری تیرے بہکے سے قدم
میری امید کے صحرا بهی گاہے جاتے
ہم بهی کیوں دہر کی رفتار سے ہوتے پامال
ہم بهی ہر لغزشِ مستی کو سراہے جاتے
لذتِ درد سے آسودہ کہاں دل والے
ہیں فقط درد کی حسرت میں کراہے جاتے
دی نہ مہلت ہمیں ہستی نے وفا کی ورنہ
اور کچھ دن غمِ ہستی سے نبھائے جاتے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام