ہم نے اخلاص و وفا کے دام پھیلائے بہت

غزل| مولانا ذکی کیفیؔ انتخاب| بزم سخن

ہم نے اخلاص و وفا کے دام پھیلائے بہت
پھر بھی ہم سے دور ہی رہتے ہیں ہمسائے بہت
جانے کس کس طرح سے دیتے رہے خود کو فریب
دل کوٹھکرا کر اگر چہ لوگ پچھتائے بہت
اپنی ہی تنہائیوں کی آگ میں جلتے ہوئے
راستے میں جا بجا ہم کو ملے سائے بہت
اجنبی سمجھے تھے ہم جس کو وہ اپنی شکل تھی
غور سے جب آئینہ دیکھا تو گھبرائے بہت
اس میں سب اپنی حقیقت بیں نظر کا ہے قصور
ہم خوشی کی محفلوں سے غم اُٹھا لائے بہت
پھول کے مانند کانٹوں میں گزر کرتے رہے
مسکرائے بھی بہت اور زخم بھی کھائے بہت
ہم رہے مصروفِ تعمیرِ نشیمن ہر طرح
بجلیاں چمکیں بہت بادل بھی منڈلائے بہت
ہم کو سچ پوچھو تو منزل کی تمنا بھی نہیں
راستے میں بس تمہارا ساتھ مل جائے بہت
ساعتوں میں عمر بٹ کر ریزہ ریزہ ہوگئی
زندگی نے لمحہ لمحہ خواب دکھلائے بہت
فکر کی حد سے اگر بچ جائیں تو صدیاں بھی کم
ایک لمحہ بھی اگر سوچو تو بن جائے بہت

ابتدا میں تو ذکیؔ ہم اس قدر تنہا نہ تھے
زندگی کے حادثوں میں دوست کام آئے بہت


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام