شباب ڈھلتے ہی آئی پیری مآل پر اب نظر ہوئی ہے

غزل| دلؔ شاہ جہاں پوری انتخاب| بزم سخن

شباب ڈھلتے ہی آئی پیری مآل پر اب نظر ہوئی ہے
بڑی ہی غفلت میں شب گزاری کہاں پہنچ کر سحر ہوئی ہے
ستم قیامت کے ہو رہے ہیں ہزاروں جاں اپنی کھو رہے ہیں
وہ ضد سے پھر بھی نہ باز آئے اِدھر کی دنیا اُدھر ہوئی ہے
کجا وہ شب بھر میں ختم ہونا کجا یہ جل جل کے عمر کھونا
ترے جگر سوختہ کے آگے خفیف شمعِ سحر ہوئی ہے
نہ پوچھ دامن سے تو خدارا لہو بھی شامل ہے اس میں دل کا
یہ اشک رنگیں ہیں ان سے ہمدم ابھی ابھی آنکھ تر ہوئی ہے
وہ آہِ دل سوز جوشِ غم میں جنابِ دلؔ کی جو ہم نفس تھی
جہاں جہاں اس کو آزمایا وہیں وہیں بے اثر ہوئی ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام