تلخی زبان تک تھی وہ دل کا برا نہ تھا

غزل| واصف علی واصفؔ انتخاب| بزم سخن

تلخی زبان تک تھی وہ دل کا برا نہ تھا
مجھ سے جدا ہوا تھا مگر بے وفا نہ تھا​
طرفہ عذاب لائے گی اب اس کی بد دعا
دروازہ جس پہ شہر کا کوئی کھلا نہ تھا
شامل تو ہوگئے تھے سبھی اک جلوس میں
لیکن کوئی کسی کو بھی پہچانتا نہ تھا
آگاہ تھا میں یوں تو حقیقت کے راز سے
اظہارِ حق کا دل کو مگر حوصلہ نہ تھا
جو آشنا تھا مجھ سے بہت دور رہ گیا
جو ساتھ چل رہا تھا مرا آشنا نہ تھا​
سب چل رہے تھے یوں تو بڑے اعتماد سے
لیکن کسی کے پاؤں تلے راستہ نہ تھا​

ذروں میں آفتاب نمایاں تھے جن دنوں
واصفؔ وہ کیسا دور تھا وہ کیا زمانہ تھا​


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام