ہر اک جنت کے رستے ہو کے دوزخ سے نکلتے ہیں

غزل| آل احمد سرورؔ انتخاب| بزم سخن

ہر اک جنت کے رستے ہو کے دوزخ سے نکلتے ہیں
انہیں کا حق ہے پھولوں پہ جو انگاروں پہ چلتے ہیں
حقائق ان سے ٹکرا کر نئے سانچوں میں ڈھلتے ہیں
بڑے ہی سخت جاں ہوتے ہیں جو خوابوں پہ پلتے ہیں
گماں ہوتا ہے جن موجوں پہ اک نقشِ حبابی کا
انہی سوئی ہوئی موجوں میں کچھ طوفان پلتے ہیں
وہ رات آخر ہوئی تو کیا یہ دن کب رہنے والا ہے
ستارے ماند ہوتے ہیں اگر سورج بھی ڈھلتے ہیں
تمہاری مصلحت اچھی کہ اپنا یہ جنوں بہتر
سنبھل کر گرنے والو ہم تو گر گر کر سنبھلتے ہیں
تلوّن چشمِ ساقی میں تغیر وضعِ رندی میں
ہمارے میکدے میں روز پیمانے بدلتے ہیں
اندھیرا ہی اندھیرا ہے مری تاریک راہوں میں
مجھے کیا ان چراغوں سے جو ایوانوں میں جلتے ہیں
کبھی بے وجہ رنجش ہے کبھی بے سود کاہش ہے
وہی ہے شوق لیکن ہر گھڑی عنواں بدلتے ہیں
حقائق سرد ہو سکتے ہیں سب محراب و منبر کے
مگر وہ خواب جو رندوں کے پیمانے میں ڈھلتے ہیں
جنوں نے عالمِ وحشت میں جو راہیں نکالی ہیں
خرد کے کارواں آخر انہی راہوں پہ چلتے ہیں

سرورِؔ سادہ کو یوں تو لہو رونا ہی آتا ہے
مگر اس سادگی میں بھی بڑے پہلو نکلتے ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام