بشر کی روح میں یہ اضطراب کیسا ہے

غزل| آل احمد سرورؔ انتخاب| بزم سخن

بشر کی روح میں یہ اضطراب کیسا ہے
سوال کیا تھے اور اُن کا جواب کیسا ہے
خطا ہوئی تھی پر اتنا گناہ گار نہ تھا
یہ سوچنے کا مسلسل عذاب کیسا ہے
سروں پہ چلتے ہیں دل میں اتر نہیں سکتے
کوئی بتائے کہ یہ انقلاب کیسا ہے
حقوق گھٹ گئے اور فرض ہوگئے لمبے
تمہاری بزم میں یارو حساب کیسا ہے
خلش جنوں کی سزا پیاس آگہی کا صلہ
مرے لئے کرمِ بے حساب کیسا ہے
سوال کرتے رہو خیریت اسی میں ہے
یہ سوچ کر نہ رکو تم جواب کیسا ہے
گدائے خواب بھی پا بستۂ حقیقت بھی
خدا کی بستی میں انساں خراب کیسا ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام