جو شک رہا بھی تو کیا جو یقیں رہا بھی تو کیا

غزل| دانیال طریرؔ انتخاب| بزم سخن

جو شک رہا بھی تو کیا جو یقیں رہا بھی تو کیا
محاذِ جنگ پہ کوئی نہیں رہا بھی تو کیا
جو آسماں سے پرے تھا وہیں رہا موجود
مگر میں سوچ رہا ہوں وہیں رہا بھی تو کیا
مجھے خبر ہے نہیں ہوگا ایک دن یہ مکاں
ہزار سال اگر میں مکیں رہا بھی تو کیا
نہیں رہا بھی تو ہے کون پوچھنے والا
اگر میں واقفِ حالِ زمیں رہا بھی تو کیا
جمالِ اصل کسی طور دل نہ دیکھ سکا
نظر کے سامنے منظر حسیں رہا بھی تو کیا
زمین سرخ ہوئی آسمان سرخ ہوا
طریرؔ سبز پری کے قریں رہا بھی تو کیا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام