لشکرِ عشق نے جب سے خیمے کئے کچھ نہ کچھ روز سرحد بڑھا لی گئی

غزل| عرفانؔ صدیقی انتخاب| بزم سخن

لشکرِ عشق نے جب سے خیمے کئے کچھ نہ کچھ روز سرحد بڑھا لی گئی
اور پھر ایک دن میرے دل کی زمیں درد کی مملکت میں ملا لی گئی
رات کو رک کے صحرا جگایا گیا جب تھکن سے بدن کی طنابیں گریں
اپنے ہاتھوں کے تکیے بنائے گئے اپنی مٹی کی چادر بچھا لی گئی
ایک چڑیا کی آواز آتی رہی میرے بچوں کو مجھ سے چھڑایا گیا
میری بستی سے مجھ کو نکالا گیا میرے جنگل میں بستی بسا لی گئی
دستِ خالی پہ کیا حوصلہ کیجئے کیسے جینے کی قیمت ادا کیجئے
اب کے دربار میں نذرِ سر بھیج کر بچ نکلنے کی صورت نکالی گئی
کوچۂ رہزناں سے گزرتے ہوئے کچھ بچانا بھی تھا کچھ لٹانا بھی تھا
اپنی صدیوں کا سونا لٹایا گیا اپنی خوابوں کی جنت بچا لی گئی
ختم ہوتا ہے اس رات کا ماجرا اب یہ کیا پوچھتے ہو کہ پھر کیا ہوا
پھر چراغوں کی آنکھیں بجھا دی گئیں پھر گلوں کی زباں کاٹ ڈالی گئی

سارے منظر غبارِ پسِ کارواں ہوگئے بام و در سب دھواں ہی دھواں
اب مناجات کا وقت ہے گھر چلو! سیر کی جا چکی خاک اڑا لی گئی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام