ذہن ہو تنگ تو پھر شوخئ اَفکار نہ رکھ

غزل| عرفانؔ صدیقی انتخاب| بزم سخن

ذہن ہو تنگ تو پھر شوخئ اَفکار نہ رکھ
بند تہہ خانوں میں یہ دولتِ بیدار نہ رکھ
زخم کھانا ہی جو ٹھہرا تو بدن تیرا ہے
خوف کا نام مگر لذّتِ آزار نہ رکھ
ایک ہی چیز کو رہنا ہے سلامت پیارے
اَب جو سر شانوں پہ رکھا ہے تو دیوار نہ رکھ
خواہشیں توڑ نہ ڈالیں ترے سینے کا قفس
اِتنے شہ زور پرندوں کو گرفتار نہ رکھ
اَب میں چپ ہوں تو مجھے اپنی دلیلوں سے نہ کاٹ
میری ٹوٹی ہوئی تلوار پہ تلوار نہ رکھ
آج سے دل بھی ترے حال میں ہوتا ہے شریک
لے یہ حسرت بھی مری چشمِ گنہگار نہ رکھ

وقت پھر جانے کہاں اُس سے ملا دے تجھ کو
اِس قدر ترکِ ملاقات کا پندار نہ رکھ


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام