لفظ کی بہتات اتنی نقد و فن میں آ گئی

غزل| کاوشؔ بدری انتخاب| بزم سخن

لفظ کی بہتات اتنی نقد و فن میں آ گئی
مسخ ہو کر صورتِ معنی سخن میں آ گئی
اب نہ وہ احباب زندہ ہیں نہ رسم الخط وہاں
روٹھ کر اردو تو دہلی سے دکن میں آ گئی
نصف آنکھیں کھول کر ہی اس نے دیکھا تھا مجھے
چلنے پھرنے کی سکت مفلوج تن میں آ گئی
کثرتِ اموات سے نالہ کشِ شہرِ بتاں
عید کی رونق مکاںِ گورکن میں آ گئی
ایک بوسہ ہونٹ پر پھیلا تبسم بن گیا
جو حرارت تھی مری اس کے بدن میں آ گئی
کیوں سپیرا پن ترے نینوں میں پیدا ہو گیا
اس قدر شوخی کدھر سے بانکپن میں آ گئی
اس کے چہرے کا مجھے مردانہ پن اچھا لگا
چاشنی نمکین سی سارے بدن میں آ گئی
ایک وحشی صنف سے ہم نے شرافت سیکھ لی
پنج تن کی لو غزل کی انجمن میں آ گئی
نور ماضی شمع مستقبل فضائے روز و شب
روشنی کیا کیا غزل کی انجمن میں آ گئی
خلد کی تصویر کاوشؔ ہو بہو کشمیر تھی
لاش اس کی پیرہن سے خود کفن میں آ گئی



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام