ہے قحط نہ طوفاں نہ کوئی خوف وبا کا

غزل| سعیؔد احمد اختر انتخاب| بزم سخن

ہے قحط نہ طوفاں نہ کوئی خوف وبا کا
اس دیس پہ سایہ ہے کسی اور بلا کا
ہر شام سسکتی ہوئی فریاد کی وادی
ہر صبح سلگتا ہوا صحرا ہے صدا کا
اپنا تو نہیں تھا میں کبھی اورغموں نے
مارا مجھے ایسا رہا تیرا نہ خدا کا
پھیلے ہوئے ہر سمت جہاں‌ حرص و ہوس ہوں
پھولے گا پھلے گا وہاں کیا پیڑ وفا کا
ہاتھوں کی لکیریں‌ تجھے کیا سمت دکھائیں
سن وقت کی آواز کو رخ دیکھ ہوا کا
لقمان و مسیحا نے بھی کوشش تو بہت کی
ہوتا ہے اثر اس پہ دعا کا نہ دوا کا
اس بار جو نغمہ تِری یادوں‌ سے اٹھا ہے
مشکل ہے کہ پابند ہو الفاظ و صدا کا
اتنی ترے انصاف کی دیکھی ہیں‌ مثالیں
لگتا ہی نہیں ملک ترا ملک خدا کا

سمجھا تھا وہ اندر کہیں پیوست ہے مجھ میں
دیکھا تو مرے ہاتھ میں آنچل تھا صبا کا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام