جو اختلاف نہیں ہے تو اعتراف تو ہو

غزل| محبوب راہیؔ انتخاب| بزم سخن

جو اختلاف نہیں ہے تو اعتراف تو ہو
ہے اختلاف تو کچھ وجۂ اختلاف تو ہو
دلوں میں کیا ہے کچھ اس کا اتا پتا تو چلے
کہ بات جیسی ہو جو بھی ہو صاف صاف تو ہو
کچھ اس سے ربط و تعلق کا سلسلہ تو لگے
نہیں ہے وہ جو موافق نہ ہو خلاف تو ہو
نہیں برائی مٹانے کی گر ہمیں توفیق
کم از کم اس سے تنفر تو انحراف تو ہو
نہیں سعادتِ سجدہ اگر مقدر میں
خلوص سے درِ معبود کا طواف تو ہو
وہ اہل نقد و بصیرت ہیں خیر ہوں گے بھی
درست پہلے مگر ان کا شین قاف تو ہو

نہ ہوں جو شعر حقائق کے ترجماں راہیؔ
حقیقتوں کا مگر ان سے انکشاف تو ہو


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام