کھلی ہے کنجِ قفس میں مری زباں صیاد

غزل| رندؔ لکھنوی انتخاب| بزم سخن

کھلی ہے کنجِ قفس میں مری زباں صیاد
میں ماجرائے چمن کیا کروں بیاں صیاد
دکھائے گا نہ اگر سیرِ بوستاں صیاد
پھڑک پھڑک کے قفس ہی میں دوں گا جاں صیاد
جہاں گیا میں گیا لے کے دام واں صیاد
پھرا تلاش میں میری کہاں کہاں صیاد
دکھایا کنجِ قفس مجھ کو آب و دانہ نے
وگرنہ دام کہاں میں کہاں کہاں صیاد
اجاڑا موسمِ گل ہی میں آشیاں میرا
الٰہی ٹوٹ پڑے تجھ پہ آسماں صیاد
میں کھینچوں دام میں بلبل تو آشیانہ جلا
بہم یہ مشورہ کرتے ہیں باغباں صیاد
عجیب قصہ ہے دلچسپ اک حکایت ہے
سناؤں گا گل و بلبل کی داستاں صیاد
نہ گل کھلیں گے نہ چہکارے گا کوئی بلبل
بہار باغ کو ہونے تو دے خزاں صیاد
ہمائے زندہ گھسیٹے گا دام میں شاید
بجائے دانہ بچھاتا ہے استخواں صیاد
خبر نہیں کسے کہتے ہیں گل چمن کیسا
قفس کو جانتے ہیں ہم تو آشیاں صیاد
اداس دیکھ کے مجھ کو چمن دکھاتا ہے
کئی برس میں ہوا ہے مزاج داں صیاد
رہے نہ قابلِ پرواز بال و پر میرے
قفس سے اڑ کے میں اب جاوں گا کہاں صیاد
قفس کو شام سے لٹکا کے فرشِ خواب کے پاس
سنا کیا مری تا صبح داستاں صیاد
کرے گا یاد مرے زمزموں کو بعد مرے
ہوں چند روز تیرے گھر میں میہماں صیاد
سناؤں واقعہ اپنا تجھے تمام و کمال
جو گوشِ دل سے سنے میری داستاں صیاد
ستم زیادہ نہ کر حکم دے رہائی کا
پکارتے ہیں گرفتار الاماں صیاد
چمن میں رکھا نہ بلبل کا نام تک باقی
خدا کرے یوں ہی ہو جائے بے نشاں صیاد
ہزار مرغ خوش الحاں چہکتے ہیں ہرسو
بہ از چمن ہوا اب تو ترا مکاں صیاد
میں جھانکتا نہیں چاکِ قفس سے بھی گل کو
نہ ہووے تا مری جانب سے بد گماں صیاد
اسیر کنجِ قفس کر بہ شوق دام میں کھینچ
قضا لے آئی ہے مجھ کو کشاں کشاں صیاد
پروں کو کھول دے ظالم جو بند کرتا ہے
قفس کو لے کے میں اڑ جاؤں گا کہاں صیاد
نہ ہوں گا بند قفس میں بھی میں وہ بلبل ہوں
ہزار تجھ کو سناؤں گا داستاں صیاد
درِ قفس بھی کھلے گا تو اب نہ جاؤں گا
یقین نہ ہووے تو کر میرا امتحاں صیاد
رہا بھی ہو کے نہ بھولوں گا حقِ خدمت کو
ادائے شکر کروں گا میں ہر زباں صیاد
چمن میں بلبل و قمری کا پر نہ چھوڑے گا
رہا جب آٹھ پہر گھات میں نہاں صیاد
قفس پہ رکھنے لگا اب تو ہار پھولوں کے
ہزار شکر ہوا مجھ پہ مہرباں صیاد
عزیز رکھتا ہے کرتا ہے خاطریں میری
ملا ہے خوبیٔ قسمت سے قدرداں صیاد
نکالیو نہ قدم آشیاں سے او بلبل
لگائے بیٹھے ہیں پھندے جہاں تہاں صیاد
وہ عندلیب ہوں جل کر کروں جو نالۂ گرم
قفس کے چاکوں سے اٹھنے لگے دھواں صیاد
مرے بیان کو سن سن کے کانپ کانپ اٹھا
غضب یہ ہے کہ سمجھتا نہیں زباں صیاد
الٰہی دیکھیے کیوں کر نباہ ہوتا ہے
زباں دراز ہوں میں اور بد زباں صیاد
سوائے‌ شکر شکایت اگر کبھی کی ہو
الٰہی قطع ہو منقار سے زباں صیاد

فریبِ دانہ نہ کھاتا میں زینہار اے رندؔ
نہ کرتا دام اگر خاک میں نہاں صیاد


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام