بجھی بجھی سی ستاروں کی روشنی ہے ابھی

غزل| صوفی غلام مصطفی تبسمؔ انتخاب| بزم سخن

بجھی بجھی سی ستاروں کی روشنی ہے ابھی
یہ رات کس کے اشاروں کو ڈھونڈتی ہے ابھی
نہ جانے میری نظر ہی نہیں ہے جلوہ شناس
نہ جانے تیرے ہی جلووں میں کچھ کمی ہے ابھی
کچھ ایسے گونجتی ہے دل میں عہدِ رفتہ کی یاد
کہ جیسے تو نے کوئی بات مجھ سے کی ہے ابھی
کسی کے حسن سے کھیلی ہیں عمر بھر آنکھیں
یہ لگ رہا ہے نظر سے نظر ملی ہے ابھی
ہزار قافلے منزل پہ جا کے لوٹ آئے
مری نگاہ تری راہ ڈھونڈتی ہے ابھی
سنبھل تو جائے طبیعت مگر ستم یہ ہے
کہ اس کے بعد بھی اک اور زندگی ہے ابھی



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام