آنکھیں کھلی تھیں سب کی کوئی دیکھتا نہ تھا

غزل| صوفی غلام مصطفی تبسمؔ انتخاب| بزم سخن

آنکھیں کھلی تھیں سب کی کوئی دیکھتا نہ تھا
اپنے سوا کسی کا کوئی آشنا نہ تھا
یوں کھو گیا تھا حسن ہجومِ نگاہ میں
اہلِ نظر کو اپنی نظر کا پتہ نہ تھا
دھندلا گئے تھے نقشِ محبت کچھ اس طرح
پہچانتی تھی آنکھ تو دل مانتا نہ تھا
تم پاس تھے تمہیں تو ہوئی ہوگی کچھ خبر
اتنا تو اپنا شیشۂ دل بے سدا نہ تھا
کچھ لوگ تھے جنہیں یہ سعادت ہوئی نصیب
ورنہ یہاں کسے سرِ مہر و وفا نہ تھا
ہر دل کے سامنے کوئی دیوار تھی کھڑی
اب منزلِ وفا کا کوئی راستہ نہ تھا
ہرسمت ہو رہا تھا اندھیروں کا اژدھام
شب کٹ چکی تھی اور سویرا ہوا نہ تھا
کیا کیا فراغتیں تھیں تبسمؔ ہمیں کہ جب
دل پر کسی کی یاد کا سایہ پڑا نہ تھا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام