اس راز کو کیا جانیں ساحل کے تماشائی

غزل| مظفر رزمؔی انتخاب| بزم سخن

اس راز کو کیا جانیں ساحل کے تماشائی
ہم ڈوب کے سمجھے ہیں دریا تری گہرائی
جاگ اے مرے ہمسائے خوابوں کے تسلسل سے
دیوار سے آنگن میں اب دھوپ اُتر آئی
چلتے ہوئے بادل کے سائے کے تعاقب میں
یہ تشنہ لبی مجھ کو صحراؤں میں لے آئی
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی

کیا سانحہ یاد آیا رزمؔی کی تباہی کا
کیوں آپ کی نازک سی آنکھوں میں نمی آئی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام