مسافر آ بھی گئے گردِ رہ گزر کے بغیر

غزل| افتخار امام صدیقی انتخاب| بزم سخن

مسافر آ بھی گئے گردِ رہ گزر کے بغیر
سفر تمام ہوا مقصدِ سفر کے بغیر
اتر بھی آئے زمیں پر فلک خموشی سے
سمٹ ہی جائے یہ دنیا کسی خبر کے بغیر
بھٹک گیا ہوں میں سایوں میں اپنی منزل سے
میں اپنی دھوپ میں چلتا کسی شجر کے بغیر
میں اپنے جسم سے باہر نکل کے دیکھوں تو
نیا جہان کوئی ہو زمیں بشر کے بغیر

مکالمہ مجھے آتا ہے اپنی موت کے ساتھ
میں زندہ رہتا ہوں ہر پل کسی بھی ڈر کے بغیر


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام