دوستی کا ہاتھ ۔ ۔ ۔ گزر گئے کئی موسم کئی رتیں بدلیں

نظم| احمد فرازؔ انتخاب| بزم سخن

ہندوستانی دانشوروں کے نام احمد فراز کی ایک نظم

گزر گئے کئی موسم کئی رتیں بدلیں
اداس تم بھی ہو یارو اداس ہم بھی ہیں
فقط تمہیں کو نہیں رنجِ چاک دامانی
کہ سچ کہیں تو دریدہ لباس ہم بھی ہیں
تمہارے بام کی شمعیں بھی تابناک نہیں
مرے فلک کے ستارے بھی زرد زرد سے ہیں
تمہارے آئینہ خانے بھی زنگ آلودہ
مرے صراحی و ساغر بھی گرد گرد سے ہیں
نہ تم کو اپنے خد و خال ہی نظر آئیں
نہ میں یہ دیکھ سکوں جام میں بھرا کیا ہے
بصارتوں پہ وہ جالے پڑے کہ دونوں کو
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ماجرا کیا ہے
نہ سرو میں وہ غرورِ کشیدہ قامتی ہے
نہ قمریوں کی اداسی میں کچھ کمی آئی
نہ کھل سکے کسی جانب محبتوں کے گلاب
نہ شاخِ امن لئے فاختہ کوئی آئی
تمہیں بھی ضد ہے کہ مشقِ ستم رہے جاری
ہمیں بھی ناز کہ جور و جفا کے عادی ہیں
تمہیں زعم مہا بھارتا لڑی تم نے
ہمیں بھی فخر کہ ہم کربلا کے عادی ہیں
ستم تو یہ ہے کہ دونوں کے مرغزاروں سے
ہوائے فتنہ و بوئے فساد آتی ہے
الم تو یہ ہے کہ دونوں کو وہم ہے کہ بہار
عدو کے خوں میں نہانے کے بعد آتی ہے
تو اب یہ حال ہوا اس درندگی کے سبب
تمہارے پاؤں سلامت رہے نہ ہاتھ مرے
نہ جیت جیت تمہاری نہ ہار ہار مری
نہ کوئی ساتھ تمہارے نہ کوئی ساتھ مرے
ہمارے شہروں کی مجبور و بے نوا مخلوق
دبی ہوئی ہے دکھوں کے ہزار ڈھیروں میں
اب ان کی تیرہ نصیبی چراغ چاہتی ہے
جو لوگ نصف صدی تک رہے اندھیروں میں
چراغ جن سے محبت کی روشنی پھیلے
چراغ جن سے دلوں کے دیار روشن ہوں
چراغ جن سے ضیا امن و آشتی کی ملے
چراغ جن سے دیے بے شمار روشن ہوں
تمہارے دیس میں آیا ہوں دوستو اب کے
نہ ساز و نغمہ کی محفل نہ شاعری کے لئے
اگر تمہاری انا ہی کا ہے سوال تو پھر
چلو میں ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام