سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں

غزل| مرزا غالبؔ انتخاب| بزم سخن

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں
یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں
لیکن اب نقش و نگارِ طاقِ نسیاں ہوگئیں
تھیں بنات النعش گردوں دن کو پردے میں نہاں
شب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہوگئیں
قید میں یعقوب نے لی گو نہ یوسف کی خبر
لیکن آنکھیں روزنِ دیوارِ زنداں ہوگئیں
سب رقیبوں سے ہوں نا خوش پر زنانِ مصر سے
ہے زلیخا خوش کہ محوِ ماہِ کنعاں ہوگئیں
جوئے خوں آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شامِ فراق
میں یہ سمجھوں گا کہ شمعیں دو فروزاں ہوگئیں
ان پری زادوں سے لیں گے خلد میں ہم انتقام
قدرتِ حق سے یہی حوریں اگر واں ہوگئیں
نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں
تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہوگئیں
میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھل گیا
بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں ہوگئیں
وہ نگاہیں کیوں ہوئی جاتی ہیں یا رب دل کے پار
جو مری کوتاہیٔ قسمت سے مژگاں ہوگئیں
بسکہ روکا میں نے اور سینے میں ابھریں پے بہ پے
میری آہیں بخیۂ چاکِ گریباں ہوگئیں
واں گیا بھی میں تو ان کی گالیوں کا کیا جواب
یاد تھیں جتنی دعائیں صرفِ درباں ہوگئیں
جاں فزا ہے بادہ جس کے ہاتھ میں جام آ گیا
سب لکیریں ہاتھ کی گویا رگِ جاں ہوگئیں
ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترکِ رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہوگئیں
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں
یوں ہی گر روتا رہا غالبؔ تو اے اہلِ جہاں
دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہوگئیں



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام