ہے نسیمِ صبح آوارہ اسی کے نام پر

غزل| اختؔر سعید خاں انتخاب| بزم سخن

ہے نسیمِ صبح آوارہ اسی کے نام پر
بوئے گل ٹھہری ہوئی ہے جس کلی کے نام پر
کچھ نہ نکلا دل میں داغِ حسرتِ دل کے سوا
ہائے کیا کیا تہمتیں تھیں آدمی کے نام پر
پھر رہا ہوں کو بہ کو زنجیرِ رسوائی لئے
ہے تماشا سا تماشا زندگی کے نام پر
اب یہ عالم ہے کہ ہر پتھر سے ٹکراتا ہوں سر
مار ڈالا ایک بت نے بندگی کے نام پر
کچھ علاج ان کا بھی سوچا تم نے اے چارہ گرو
وہ جو دل توڑے گئے ہیں دلبری کے نام پر
کوئی پوچھے میرے غم خواروں سے تم نے کیا کیا
خیر اس نے دشمنی کی دوستی کے نام پر
کوئی پابندی ہے ہنسنے پر نہ رونا جرم ہے
اتنی آزادی تو ہے دیوانگی کے نام پر
آپ ہی کے نام سے پائی ہے دل نے زندگی
ختم ہوگا اب یہ قصہ آپ ہی کے نام پر

کاروانِ صبح یارو کون سی منزل میں ہے
میں بھٹکتا پھر رہا ہوں روشنی کے نام پر


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام