رات کا ہر اک منظر رنجشوں سے بوجھل تھا

غزل| غلام محمد قاصرؔ انتخاب| بزم سخن

رات کا ہر اک منظر رنجشوں سے بوجھل تھا
چاند بھی ادھورا تھا میں بھی نامکمل تھا
آنکھ کی منڈیروں پر آرزو نہیں لرزی
اک چراغ کی لو سے اک چراغ اوجھل تھا
جا ملا ترے در کے گم شدہ زمانوں میں
میری عمر کا حاصل پیار کا جو اک پل تھا
کیوں سلگتی آوازیں بھیگ بھیگ جاتی تھیں
دشتِ نارسائی میں دھوپ تھی نہ بادل تھا

دور تو نہ تھا اتنا خیمہ اس کے خوابوں کا
راستے میں اپنی ہی خواہشوں کا جنگل تھا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام