کوئی کس طرح رازِ اُلفت چھپائے

غزل| نخشبؔ جارچوی انتخاب| بزم سخن

کوئی کس طرح رازِ اُلفت چھپائے
نگاہیں ملیں اور قدم ڈگمگائے
وہ مجبوریوں پر مری مسکرائے
یہاں تک تو پہنچے یہاں تک تو آئے
محبت میں کچھ اتفاقات بھی تھے
کہ جو میری تقدیر بننے نہ پائے
ترا غم بھلا کیا چھپائے سے چھپتا
بہت اشک روکے بہت مسکرائے
وہ اس طرح میرے برابر سے گذرے
ادائیں سنبھالے نگاہیں جھکائے
زمانے کے جور و ستم توبہ توبہ
کہ اکثر تو مجھ کو نہ تم یاد آئے
ترے روبرو گر نظر مطمئن ہو
تو سینے میں دل بھی دھڑکے نہ پائے
میں اس احتیاطِ نظر کے تصدّق
نہ بیگانہ سمجھے نہ اپنا بنائے
یہی تو جوابِ شکایت تھا نخشبؔ
مرے شعر اس نے مجھی کو سنائے​


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام