ہر نفس تازہ مصیبت عمر بھر دیکھا کیے

غزل| قیصؔر حیدری انتخاب| بزم سخن

ہر نفس تازہ مصیبت عمر بھر دیکھا کیے
دیکھنے کی شے نہ تھی دنیا مگر دیکھا کیے
جس قیامت سے ڈراتا بھی ہے ڈرتا بھی ہے شیخ
ٹھوکروں میں آپ کی شام و سحر دیکھا کیے
تم تو آسودہ شبِ وعدہ تھے خوابِ ناز میں
شب سے لے کر صبح تک ہم سوئے در دیکھا کیے
برہمی ان کی عدو کے ظلم گردوں کے ستم
یہ تو دیکھو آفتیں ہم کس قدر دیکھا کیے
اللہ اللہ کس قدر تھا ناز ان کی دید پر
گاہے گاہے خود کو بھی ہم اک نظر دیکھا کیے
آپ ہی اک ہر طرف جلوہ نما تھے بے حجاب
آپ کو دیکھا کیے اور عمر بھر دیکھا کیے

ہم کو ہر سجدہ تھا قیصرؔ تاجِ شاہی سے سوا
سر کی قیمت آستانِ دوست پر دیکھا کیے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام