یہ بہار کا زمانہ یہ حسیں گلوں کے سائے

غزل| فناؔ نظامی کانپوری انتخاب| بزم سخن

یہ بہار کا زمانہ یہ حسیں گلوں کے سائے
مجھے ڈر ہے باغباں کو کہیں نیند آ نہ جائے
ترے وعدوں پہ کہاں تک مرا دل فریب کھائے
کوئی ایسا کر بہانہ مری آس ٹوٹ جائے
مرے گلشنِ محبت میں خزاں کہاں سے آئے
کبھی اس نے گل کھلائے کبھی میں نے گل کھلائے
تری سازشی توجہ یہ نہیں تو اور کیا ہے
میں جہاں چلا سنبھل کر وہیں پاؤں ڈگمگائے
کھِلے گلشنِ وفا میں گلِ نامراد ایسے
نہ بہار ہی نے پوچھا نہ خزاں کے کام آئے
مرے ضبطِ غم کی عظمت کا پتہ بھی چل گیا ہے
مرا امتحان لے کر کوئی تجھ کو آزمائے
کوئی ہم سے پوچھے ان کے کرم و ستم کا عالم
کبھی مسکرا کے روئے کبھی رو کے مسکرائے
میں چلا شراب خانے جہاں کوئی غم نہیں ہے
جیسے دیکھنی ہو جنت مِرے ساتھ ساتھ آئے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام