مری خموشی تلک تھے مغالطے کیسے

غزل| قمرؔ سنبھلی انتخاب| بزم سخن

مری خموشی تلک تھے مغالطے کیسے
زبان کھلی تو ہوئے آج تبصرے کیسے
نقابِ سنگ ہے اوڑھے ہوئے یہاں ہر شخص
دکھائیں چہروں کے خال و خد آئینے کیسے
زمین سر پہ مرے آسماں ہے پیروں میں
خلا نوردی نے بخشے ہیں تجربے کیسے
ہر اک چیز انھیں بےمزہ سی لگتی ہے
چڑھے لہو کے زبانوں پہ ذائقے کیسے
حیات اپنی قمرؔ معجزہ سی لگتی ہے
ہم اس ہجومِ حوادث میں جی لئے کیسے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام