جھلمل جھلمل جگمگ جگمگ خواب سہانے جاتے ہیں

غزل| جمیل الدین عالیؔ انتخاب| بزم سخن

جھلمل جھلمل جگمگ جگمگ خواب سہانے جاتے ہیں
جانے پہچانے آئے تھے اور اَن جانے جاتے ہیں
ایسا لگتا ہے جیسے وہ ہم سے بہت مایوس ہوئے
جیسے پہلے ہم وہ نہیں تھے جو اب مانے جاتے ہیں
ہاں اس پاپ نگر میں سب آتے ہیں لیکن فرق یہ ہے
لوگ تو چھپ کر چل دیتے ہیں ہم پہچانے جاتے ہیں
اے مستقبل ، اے مستقبل آخر تو کب آئے گا
کتنے زمانے آتے ہیں اور کتنے زمانے جاتے ہیں
ساری مقدس تحریروں میں پریم گگن کی کرنیں ہیں
ہاۓ وہ ہم جو ان کرنوں سے آگ لگانے جاتے ہیں
خواہش کچھ حاصل کرنا ہے پیار سبھی کچھ دے دینا
یہ لکھا اور جانے کیوں ان کو سبھی سنانے جاتے ہیں
تھک گئیں ذہن کی روشنیاں اب وہ راہیں دکھلا جن میں
کتنے چاند اور کتنے سورج تیرے بہانے جاتے ہیں
ان سے نہ پوچھو ہم بتلائیں عالیؔ جی کا حال تمہیں
سیر چمن کر آۓ ہیں اور خاک اڑانے جاتے ہیں



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام