حیرت ہے کسی ہاتھ میں پتھر بھی نہیں ہے

غزل| حبیبؔ ہاشمی انتخاب| بزم سخن

حیرت ہے کسی ہاتھ میں پتھر بھی نہیں ہے
اور شہر میں محفوظ کوئی سر بھی نہیں ہے
اُس شخص کو کچھ لوگ بڑھانے میں لگے ہیں
جو شخص مرے قد کے برابر بھی نہیں ہے
جس شہر کی عظمت ہے مرے نام سے منسوب
اس شہر میں میرے لئے اک گھر بھی نہیں ہے
بے مثل ہے اخلاص میں تو جانِ بہاراں
اور تیری طرح کوئی ستمگر بھی نہیں ہے

ہم نے اسی دنیا میں بہت دکھ ہیں اٹھائے
اب ہم کو تو اندیشۂ محشر بھی نہیں ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام