بے وفا سے بھی پیار ہوتا ہے

غزل| پرنمؔ الہ آبادی انتخاب| بزم سخن

بے وفا سے بھی پیار ہوتا ہے
یار کچھ بھی ہو یار ہوتا ہے
ساتھ اس کے جو ہے رقیب تو کیا
پھول کے ساتھ خار ہوتا ہے
جب وہ ہوتے ہیں صحنِ گلشن میں
موسمِ نو بہار ہوتا ہے
کاش ہوتے ہم اس کے پھولوں میں
اس گلے کا جو ہار ہوتا ہے
دوست سے کیوں بھلا نہ کھاتے فریب
دوست پہ اعتبار ہوتا ہے
جب وہ آتے نہیں شبِ وعدہ
موت کا انتظار ہوتا ہے
وصل میں بھی خیالِ ہجر سے دل
بے سکوں بے قرار ہوتا ہے
ہم بڑے خوش نصیب ہیں ورنہ
آپ کو کس سے پیار ہوتا ہے
تیر وہ تیرِ نیم کش تو نہیں
دل کے جو آر پار ہوتا ہے
حسن اخلاق عروس حیات
سب سے اچھا سنگار ہوتا ہے
عشق کی کائنات کا پرنمؔ
حسن پروردگار ہوتا ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام