جو قربتوں کے نشے تھے وہ اب اترنے لگے

غزل| احمد فرازؔ انتخاب| بزم سخن

جو قربتوں کے نشے تھے وہ اب اترنے لگے
نسیمِ ہجر کے جھونکے اداس کرنے لگے
گئی رتوں کا تعلق بھی جان لیوا تھا
بہت سے پھول نئے موسموں میں مرنے لگے
غزل میں جیسے ترے خدّ و خال بول اٹھیں
کہ جس طرح تری تصویر بات کرنے لگے
وہ مدّتوں کی جدائی کے بعد ہم سے ملا
تو اس طرح سے کہ اب ہم گریز کرنے لگے

بہت دنوں سے وہ گھمبیر خامشی ہے فرازؔ
کہ لوگ اپنے خیالوں سے آپ ڈرنے لگے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام