دل پر حوصلہ تھک کر بھی کب ناشاد ہوتا ہے

غزل| شفیقؔ جونپوری انتخاب| بزم سخن

دل پر حوصلہ تھک کر بھی کب ناشاد ہوتا ہے
بگولہ جھومتا چلتا ہے گو برباد ہوتا ہے
کہیں مرکز سے کوئی دور ہو کر شاد ہوتا ہے
جو پتہ ٹوٹتا ہے شاخ سے برباد ہوتا ہے
فلک تو نے نہ میری خاک کے ذرّوں کو پہچانا
انھیں تاروں سے روشن عالمِ ایجاد ہوتا ہے
اگر ساقی مجھے آنے نہیں دیتا نہ آنے دے
ذرا دیکھوں تو کیوں کر میکدہ آباد ہوتا ہے
ابھرتا ہے مرے ہمراہ پستی سے بھی سیارہ
میں وہ تارا نہیں جو ٹوٹ کر برباد ہوتا ہے
دیا کرتی ہے ساری رات شبنم خونِ دل اپنا
سحر کا پھول تب جا کر گلستاں زاد ہوتا ہے
مہِ تاباں تو کرنیں ڈالتا ہے ذرّے ذرّے پر
چمک جاتا ہے جس میں نور استعداد ہوتا ہے
کمالِ عاشقی ہر شخص کو حاصل نہیں ہوتا
ہزاروں میں کوئی مجنوں کوئی فرہاد ہوتا ہے
نہ جانے یاد آ جاتی ہے کس کی آخری ہچکی
صبا جب کوئی غنچہ ٹوٹ کر برباد ہوتا ہے
یہاں تو ایک لمحہ بھی نہ اطمینان سے گزرا
خدا جانے کوئی دنیا میں کیوں کر شاد ہوتا ہے
خطا اپنی ہے وہ ماحول کیوں بننے دیا ہم نے
جہاں انسان ہی انسان کا جلاد ہوتا ہے
یہاں بجلی گرے یا اس چمن میں آندھیاں آئیں
بہ ہر صورت غریبوں ہی کا گھر برباد ہوتا ہے
خدا جانے مرے گلشن ترا انجام کیا ہوگا
جسے مالی بناتا ہوں وہی صیّاد ہوتا ہے
وہ رشکِ ترک شیرازی نقابِ رخ تو سرکا دے
ابھی روشن چراغِ بصرہ و بغداد ہوتا ہے

جو تیری رہ گزر میں آ کے رو جاتا ہے راتوں کو
وہ سنتے ہیں شفیقؔ خانماں برباد ہوتا ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام