کلی پر مسکراہٹ آج بھی معلوم ہوتی ہے

غزل| شفیقؔ جونپوری انتخاب| بزم سخن

کلی پر مسکراہٹ آج بھی معلوم ہوتی ہے
مگر بیمار ہونٹوں پر ہنسی معلوم ہوتی ہے
اسیری کی خوشی کس کو خوشی معلوم ہوتی ہے
چراغاں ہو رہا ہے تیرگی معلوم ہوتی ہے
بظاہر روئے گل پر تازگی معلوم ہوتی ہے
مگر برباد چہرے کی خوشی معلوم ہوتی ہے
نسیمِ صبح تو کیا سونے والوں کو جگائے گی
ابھی تو صبح خود سوئی ہوئی معلوم ہوتی ہے
چمن کا لطف کھوتا ہے چمن میں اجنبی ہونا
خزاں بھی اپنے گلشن کی بھلی معلوم ہوتی ہے
تجھے ہم دوپہر کی دھوپ میں دیکھیں گے ائے غنچے
ابھی شبنم کے رونے پر ہنسی معلوم ہوتی ہے
چلیں گرم آندھیاں سورج بھی چمکا خاک مقتل پر
وہی خونِ شہیداں کی نمی معلوم ہوتی ہے
ذرا ائے میکشو انجامِ محفل پر نظر رکھنا
کہ دورِ آخری میں نیند سی معلوم ہوتی ہے
مہ و انجم کے خالق کچھ نئے تارے فروزاں کر
کہ پھر آفاق میں بے رونقی معلوم ہوتی ہے
سمندر بھی ہے دریا بھی ہے چشمے بھی ہیں نہریں بھی
اور انساں ہے کہ اب تک تشنگی معلوم ہوتی ہے
زمانے کی ترقی تشنۂ تکمیل ہے یا رب
ابھی اک مردِ مومن کی کمی معلوم ہوتی ہے
نہ جاؤ دیکھ لو شمعِ سحر کا جھلملانا بھی
یہ محفل کی بہارِ آخری معلوم ہوتی ہے
تو پھر کرنا ہی پڑتا ہے وہاں اقرار قدرت کا
جہاں انسان کو اپنی کمی معلوم ہوتی ہے
مری اک آہ پر جو پھول دامن چاک کرتے تھے
اب ان کو میرے نالوں پر ہنسی معلوم ہوتی ہے
بظاہر چشمِ ساقی محوِ خوابِ ناز ہے لیکن
جوابِ نرگسِ بیدار بھی معلوم ہوتی ہے
ہمیشہ خوش رہے ان کی نگاہوں کی مسیحائی
اب اپنی زندگی بھی زندگی معلوم ہوتی ہے
محبت ہے ضرور ان سے مگر میری متانت کو
نہ جانے کیوں یہ نسبت بھی بری معلوم ہوتی ہے
شفیقؔ آثار ہیں مشرق کی جانب تازہ کرنوں کے
یہ میری شامِ نَو کی چاندنی معلوم ہوتی ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام