ہے کون یہاں باقی جو چیز ہے فانی ہے

غزل| کوثرؔ جعفری انتخاب| بزم سخن

ہے کون یہاں باقی جو چیز ہے فانی ہے
کتنی بھی سہانی ہو دو دن کی جوانی ہے
آلودۂ غم دونوں آسودۂ غم دونوں
جو میری کہانی ہے وہ اُن کی کہانی ہے
سوکھے ہوئے پتوں کو پیروں سے نہ روندو تم
یہ گزری ہوئی رت کی بے رنگ نشانی ہے
پھولوں سے حسینوں کو تشبیہ نہیں دیتے
پھولوں کی طرح کس کی معصوم جوانی ہے
سوچیں تو بلندی کا پوشیدہ ہے راز اس میں
روپوش جو بادل میں ٹھہرا ہوا پانی ہے
معلوم نہیں کوثرؔ کیا گزرے بڑھاپے میں
بےخوف لڑکپن تھا بے باک جوانی ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام