وفا نے جھوم کے جب تیرے گیت گائے ہیں

غزل| خورشید احمد جامیؔ انتخاب| بزم سخن

وفا نے جھوم کے جب تیرے گیت گائے ہیں
قدم افق پہ اندھیروں کے لڑکھڑائے ہیں
دیارِ ماہ وشاں سے خوشی کے دھوکے میں
ہزار بار نئے غم خرید لائے ہیں
ترے قریب پہنچ کر بھی کم نہیں ہوتے
غمِ حیات نے جو فاصلے بڑھائے ہیں
گل اجنبی سے تو انجان سی فضائے چمن
کچھ اس بہار کے انداز ہی پرائے ہیں
تری نگاہ مداوا نہ بن سکی جن کا
تری تلاش میں ایسے بھی زخم کھائے ہیں
بہت طویل سہی راہِ جستجو لیکن
بہت حسین ترے گیسوؤں کے سائے ہیں
پڑا ہے عکس جو رخسارِ شعلۂ مے کا
تو آئینے تری یادوں کے جگمگائے ہیں
پیامِ یار کہیں دشتِ شامِ یجراں میں
جب آئے ہیں تو سحر در کنار آئے ہیں

مسافرانِ شبِ غم کی راہ میں جامیؔ
خیال و فکر نے کتنے دیئے جلائے ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام