مہک اٹّھا یکایک ریگزارِ دردِ تنہائی

غزل| خورشید احمد جامیؔ انتخاب| بزم سخن

مہک اٹّھا یکایک ریگزارِ دردِ تنہائی
کسے اے یادِ جاناں تُو یہاں تک ڈھونڈنے آئی
بڑے دلچسپ وعدے تھے بڑے رنگین دھوکے تھے
گُلوں کی آرزو میں زندگی شعلے اٹھا لائی
بتاؤ تو اندھیروں کی فصیلوں سے پَرے آخر
کہاں تک قافلہ گزرا کہاں تک روشنی آئی
تمہارے بعد جیسے جاگتا ہے شب کا سناٹا
در و دیوار کو دیتا ہے کوئی اذنِ گویائی

سنا ہے سایۂ رُخسار میں کچھ دیر ٹھہری تھی
وہیں سے جگمگاتے خواب لے کر زندگی آئی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام