تیر کھانے کی ہوس ہے تو جگر پیدا کر

غزل| امیرؔ مینائی انتخاب| بزم سخن

تیر کھانے کی ہوس ہے تو جگر پیدا کر
سرفروشی کی تمنا ہے تو سر پیدا کر
کوہکن! کوہکنی شیوۂ عشاق نہیں
ہے جو عاشق دلِ معشوق میں گھر پیدا کر
کون سی جا ہے جہاں جلوۂ معشوق نہیں
شوقِ دیدار اگر ہے تو نظر پیدا کر
مرے ہی دل پہ گرے کاش یہ بجلی بن کر
ائے فلک! آہ میں اتنا ہی اثر پیدا کر
اپنی گردش پہ بہت ہے تجھے ائے چرخ گھمنڈ
جب میں جانوں کہ شبِ غم کی سحر پیدا کر
صدمے اُلفت کے اُٹھانے ہیں الہی! مشکل
دل اگر ایک دیا لاکھ جگر پیدا کر
عشق بازی کا اگر حوصلہ رکھتا ہے امیؔر
دل جو لوہے کا تو پتھر کا جگر پیدا کر


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام