اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے

غزل| بہزادؔ لکھنوی انتخاب| بزم سخن

اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے
منزل کے لئے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے
اے دل کی خلش چل یوں ہی سہی چلتا تو ہوں اُن کی محفل میں
اس وقت مجھے چونکا دینا جب رنگ پہ محفل آ جائے
اے رہبرِ کامل چل دیکھو تیار تو ہوں پر یاد رہے
اس وقت مجھے بھٹکا دینا جب سامنے منزل آ جائے
ہاں یاد مجھے تم کر لینا آواز مجھے تم دے لینا
اس راہِ محبت میں کوئی درپیش جو مشکل آ جائے
اب کیوں ڈھونڈوں وہ چشمِ کرم ہونے دے ستم بالائے ستم
میں چاہتا ہوں اے جذبۂ غم مشکل پہ مشکل آ جائے
اس جذبۂ دل کے بارے میں اک مشورہ تم سے لیتا ہوں
اس وقت مجھے کیا لازم ہے جب تجھ پہ مرا دل آ جائے
اے برقِ تجلی کوندھ ذرا کیا مجھ کو بھی موسیٰ سمجھا ہے
میں طور نہیں جو جل جاؤں جو چاہے مقابل آ جائے

کشتی کو خدا پر چھوڑ بھی دے کشتی کا خدا خود حافظ ہے
مشکل تو نہیں ان موجوں میں بہتا ہوا ساحل آ جائے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام