اک حال پہ رہتا نہیں دنیا کا فسانہ

غزل| شعریؔ بھوپالی انتخاب| بزم سخن

اک حال پہ رہتا نہیں دنیا کا فسانہ
رفتار بدلتا ہوا چلتا ہے زمانہ
اس راز کو سمجھا ہے نہ سمجھے گا زمانہ
میں ان کا فسانہ ہوں کہ وہ میرا فسانہ
برہم جو وہ ہو جائیں تو برہم ہوں دو عالم
بدلیں جو وہ نظریں تو بدل جائے زمانہ
قاتل مرے قاتل تیرے صدقے ترے قرباں
مل جائے ذرا دل کو تڑپنے کا بہانہ
ہاں پھر اسی انداز سے دزدیدہ نگاہیں
ہاں پھر اسی تیور سے نشانے پہ نشانہ
اللہ رے اک لفظِ محبت کی یہ وسعت
عنوان کا عنوان فسانے کا فسانہ
اے کاش مخاطب رہیں وہ مست نگاہیں
اے کاش اِسی مرکز پہ ٹھہر جائے زمانہ
آسودۂ راحت ہے مریضِ شبِ ہجراں
کہہ دو کہ دبے پاؤں گزر جائے زمانہ

ڈوبا ہوا انسان جو انسان ہے شعریؔ
آغوش میں لے کر ابھر آئے گا زمانہ


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام