غضب ہے جستجوئے دل کا یہ انجام ہو جائے

غزل| شعریؔ بھوپالی انتخاب| بزم سخن

غضب ہے جستجوئے دل کا یہ انجام ہو جائے
کہ منزل دور ہو اور راستے میں شام ہو جائے
وہی نامہ وہی نغمہ بس اک تفریقِ لفظی ہے
قفس کو منتشر کردو نشیمن نام ہوجائے
تصدق عصمتِ کونین اس مجذوبِ الفت پر
جو اِن کا غم چھپائے اور خود بدنام ہو جائے
یہ عالم ہو تو ان کو بے حجابی کی ضرورت کیا
نقاب اٹھنے نہ پائے اور جلوہ عام ہو جائے
یہ میرا فیصلہ ہے آپ میرے ہو نہیں سکتے
میں جب جانوں کہ یہ جذبہ مرا ناکام ہو جائے
ابھی تو دل میں ہلکی سی خلش معلوم ہوتی ہے
بہت ممکن ہے کل اس کا محبت نام ہو جائے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام